Type Here to Get Search Results !

Comments

بصیرت کیا چیز ہے؟

 

what is baseerat

Baseerat kya he? In Urdu

ایک سوال جو اکثر انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے کہ؛

 یہ بصیرت کیا چیز ہے؟

برسوں سے اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی لیکن پھر بھی کوئی واضع جواب نہیں ملتا ہر جواب کسی نا کسی مثال یا کسی کہانی کے گرد گھومتا ہے۔

اس سوال نے جب مجھے اپنے بھنور میں لیا تو میرا بھی وہی حال تھا جو عام لوگوں کا ہوتا ہے یعنی کچھ سمجھ نہیں آیا۔بس ایک چیز مجھے سمجھ آئی کہ اس کا جواب صرف تجربے سے ہی ممکن ہو گا۔

چار یا پانچ سال پہلے مجھے بہت ہی عجیب وغریب سوالات نے آن گھیرا اور ان کے جوابات کی پیاس کی وجہ سے میں لاشعوری طور پر ایک ایسے راستے پر چل کھڑا ہوا جو کہ بہت ہی خطرناک اور انتہائی حساس تھا اور وہ راستہ تھا ؛ 

'' تمام عقائد کا شعوری تجربہ''

عقائد سے مراد وہ تمام معاشی،معاشرتی اور مزہبی باتیں جن کے بارے میں کوئی سوچنا،سمجھنا یا سوال نہیں کرنا چاہتا۔

ان عقائد کے بارے میں میرے سوالات کچھ یوں تھے ؛

اگر نماز پڑھنا ضروری ہے تو بحث ہاتھ باندھنے اور پانچے اوپر کرنے پر کیوں ہوتی ہے؟

مسواک کرنا سنت ہے یا دانت صاف کرنا ؟

اگر سفر کرنا عبادت ہے تو جب بلی راستہ کاٹے گی تو مجھے سفر کیوں ترک کرنا چاہیے؟

کاروبار میں برکت ایمانداری سے ہوگی یا لوح قرآنی لگانے سے؟

ایک مسلمان اور ایک کافر اگر دریا میں ڈوب رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ مسلمان کی مدد کریں گے یا جسے تیرنا آتا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ

اور بےشمار سوالات ان کے جوابات ہر کسی نے اپنے علم اور دانش کے مطابق دیے۔

زیادہ تر نے تو اتنا ظلم کیا کہ ان کے جوابات ناپے تُلے ہوئے دیے جو ایسے ہی صدیوں سے چلتے آرہے ہیں اور ان کو ایسے ہی ماننا ہے۔

کچھ نے تو یہ بھی کہا سب لوگ ان جوابات کو ہی مانتے ہیں چاہے آپ اس پہ مطمئن ہوں یا نہ ہوں  لیکن مجھے تو حیرت تب ہوئی جب مجھے سب کے جوابات ٹھیک لگ رہے تھے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کس کو مانوں اور کس کو نہ مانوں اس وقت مجھے اپنی جہالت کا اندازہ ہوا۔

یاد رکھیں؛

ایک جھوٹ جس کو پوری دنیا سچ مان لے وہ کبھی سچ نہیں ہوسکتا۔

تب مجھے احساس ہوا کہ بصیرت کا پانے کے لیے مجھے عقائد سے پاک کسی راستے پر چلنا ہوگا روشنی کو پانے کے لیے اندھیرے سے گزرنا ہوگا۔

ایمانداری اور سچ کو بنیاد بنا کے میں چل نکلا۔آہستہ آہستہ چیزیں میرے تجربے سے گزرنے لگیں اور ایک انجانی طاقت کا ہلکا ہلکا احساس ہونے لگا جو ہمیشہ میرے کان میں سرگوشی کرتی اور میرے لیے کوئی بھی فیصلہ کرنا  آسان ہوجاتا۔

تاحال اس سرگوشی کو میں کوئی نام نہیں دے پایا کوئی اسے ضمیر کی آواز ،کوئی اسے دل کی آواز،کوئی اسے خدا کی آواز ،کوئی اسے ذہانت،کوئی اسے دانش اور کوئی اسے بصیرت کہتا ہے۔


(ابراہیم خلجی)

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Latest Deals